قربتوں میں بھی جداییٔ کے زمانے مانگے
قربتوں میں بھی جداییٔ کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیۓ
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے، لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تو ہے کہ سدا آیٔنہ خانے مانگے
دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جانِ فرزؔ
مل گیۓ تم بھی تو نہجانے مانگے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment